تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط14
....................
رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے فضاء میں ایک عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی وہ ٹیرس پر کھڑی آج شام کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی......
"کیا زندگی اتنی جلدی پلٹا کھاتی ہے ؟
"میری زندگی آخر مجھے اور کتنے موڑ دکھائے گی ؟
سوچ کے تسلسل اتنے گہرے تھے کہ اسکو ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا....
"کیسا ہوگا وہ سفر جسکو میں طے کرنے جا رہی ہوں ؟
وُہ سوچ ہی رہی تھی جب انٹرنس گیٹ سے اسکو دو گاڑیاں اندر آتے ہوئے نظر آئی.... وُہ اپنی گہری سوچ سے باہر نکلی تھی....
گاڑی پورچ میں آ کر رکی تھی۔ ملازم نے دروازہ کھولا تھا جس میں سے ایک ستّر سال کے بزرگ باہر نکلے تھے....
سفید کلف کے کرتا پاجامہ پہنے کندھے پر بڑی ہی خوبصورت سرداروں والی چادر ڈالی ہوئی تھی...
ہاتھوں میں اسٹک پکڑے وہ اندر کی جانب بڑھے . جیری بہت گور سے دیکھ رہی تھی یہ سب دوسری طرف سے گاڑی کا گیٹ کھلا اور ایک شفیق سی پُرنور چہرے کی ایک خاتون جو قریب اُنکے ہی ہم عمر تھی سفید سوٹ میں ملبوس بڑی سی چادر میں لپٹا پُرنور چہرا وُہ خاتون بلاشبہ بہت پیاری تھی.... اُنکو ملزمہ نے پکڑا ہوا تھا....... وُہ بھی اندر کے جانب بڑھ گئی ......
جیری کو حیرت ہوئی تھی آج سے پہلے تو اُسنے نہیں دیکھا تھا کبھی انکو.....
"یہ کون ہے ؟ وُہ خود سے بڑ بڑائی..
تبھی دوسری گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسمیں سے ایک فیملی باہر نکلی تھی ... کون تھی وُہ فیملی جیری نہیں جانتی تھی...... وُہ فیملی بھی اندر کے جانب بڑھ گئی تھی.......
جیری نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے روم میں آ گئی اب اُسکا ارادہ لاؤنج میں جانے کا تھا......
.......................💖💖💖
سادہ سے سلور سوٹ میں اُسکے ہی ہم رنگ حجاب کے ہالے میں خوبصورت چہرہ ہونٹوں پر ہلکی سی لپ گلوز لگائے آنکھوں میں کاجل ڈال رکھا تھا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی.....
وُہ کمرے سے نکل کر سیدھا کچن میں آئی جہاں رمنہ بھابی ملازماؤں کو کچھ ہدایت دے رہی تھی...
باہر لاؤنج سے باتوں کی آواز آ رہی تھی.... وُہ اُنکو نظرانداز کرتی فریج کی طرف بڑھی تھی۔۔
فریج میں سے بوتل نکالتے ہوئے اُسنے رمنہ کو مخاطب کیا تھا.....
"بھابی یہ باہر کون آئے ہوئے ہے ؟ پانی کو گلاس میں انڈیلتے ہوئے اُسنے پوچھا....
رمنہ جیری کی آواز پر پلٹی تھی..
"ارے واہ بھئی نند صحابہ اٹھ گئی ہو ؟ مسکرا کر رمنہ نے کہا جس پر جیری بھی مسکرا دی تھی....
"جی بھابی جی ! ویسے بھابی باہر یہ لوگ کون آئے ہوئے ہے ؟ باہر کی طرف اشارہ کر کے جیری نے اپنا سوال پھر سے دہرایا تھا......
"ارے ہاں ! میں تو بتانا ہی بھول گئی باہر دادا جان، دادی جان اور شعبان چاچو کی فیملی آئی ہوئی ہے..
"اوہ ہ ہ اچھا اچھا ! جیری نے سمجھتے ہوئے گردن ہلا کر کہا تھا.......
"کچھ کھاؤ گی ؟ بھابی نے جیری سے پوچھا ...
"نہیں بھابی ابھی دل نہیں کر رہا کچھ بھی کھانے کو ، بھابی ! میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں .." وُہ بول کر جانے لگی تھی جب اسکو اپنے پیچھے اسماء بیگم مل گئی.....
"السلام وعلیکم تائی امی !
"وعلیکم السلام بچہ ... اسماء بیگم نے سلام کا جواب دیا تھا..... بیٹا آپ اٹھ گئی چوٹ کیسی ہے اب آپکی ؟ اسماء بیگم نے فکر مندی سے بلکل سگی ماؤں کے انداز میں پوچھا تھا.....
"تائی امی بلکل ٹھیک ہوں میں.... اُسنے تائی امی کے ہاتھوں پر بوسا دیتے بتایا اُنکو .....
"الحمدلللہ ! اچھا بچہ باہر آؤ اپنے دادا ، دادی اور شعبان تایا کی فیملی سے ملو... اسماء بیگم نے مسکراتے ہوئے باہر آنے کو کہا تھا....
"جی تائی امی ! پھر وہ اسماء بیگم کے ساتھ لاؤنج میں آ گئی تھی ... اسکو دیکھ کر سب اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے تھے.... جبکہ دادا اور دادی جان کی آنکھوں میں روگ اسکو دیکھ کر آنسوں ہی آ گئے تھے.....
"السلام وعلیکم ! سر جھکا کر اُسنے سعادت مندی سے سبکو سلام کی تھی.....
اسکو دیکھ کر سبنے آہستہ سے اُسکی سلام کا جواب دیا تھا......
"میری گڑیاں ! اِدھر آؤ دادو کے پاس روبینہ بیگم تو اپنے شہزادے کی بیٹی کو دیکھ کر ہی تڑپ اٹھی تھی....
جیری کیا گلا شکوہ کرتی اُسکی تو خود کی ماں نے اسکو اکیلا چھوڑ دیا تھا جبکہ ان رشتوں نے پہلی بار میں ہی بہت عزت مان دیا تھا اسکو.....
وُہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے روبینہ بیگم کی آغوش میں آ کر بیٹھ گئی تھی... امتیاز صاحب خاموش بیٹھے اپنے روہیل کی بیٹی کو دیکھ رہے تھے.....
اُنکی نظروں میں شرمندگی محسوس ہوئی جیری کو.......دادو سے ملنے اور پیار لینے کے بعد جیری خود ہی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی اور امتیاز صاحب کے پاس اُنکے گھٹنے پر اپنا سر رکھا سب اسکو حیرت نظروں سے یہ سب کرتے دیکھ رہے تھے... جبکہ امتیاز صاحب کا تو دل ہی بھر آیا تھا آنکھوں میں آنسوں نظر آنے لگے تھے....
"دادا جان ! میں آپ سے بلکل بھی ناراض نہیں ہوں نہ میرے بابا تھے آپ سے ناراض .. دادا جان بسس مجھے آپکی دعائیں چاہئے مجھے آپکی آنکھوں میں میرے لیے محبّت چاہئے نہ کہ شرمندگی....
اُس وقت جو اپنے کیا بلکل ٹھیک کیا تھا... اُسنے آخری بات اُنکے هاتوں پر بوسا دے کے کہا تھا....
جبکہ اِمتیاز صاحب نے جیری کے سر پر ہاتھ رکھا تھا....
"میری شہزادی ! دادا جان نے بيختیار جیری کا ماتھا چما تھا.......
ایسے ہی ایسے جیری کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی تھی.... آج اُسکی فیملی مکمّل ہو گئی تھی........ ہاں اپنوں سے مل کر جیرش روہیل خان بلکل مکمل ہو گئی تھی.......
..................💖💖💖💖💖
رات گیارہ کا وقت تھا جب سمعان احمد رحمان ویلہ آیا تھا... گھر کے سارے فرد ہی آج رحمان ویلہ میں اکھٹا ہوئے تھے......
شایان ، محسین ، شایان کا چھوٹا بھائی ذیشان جو کہ پندرہ سال کا تھا محسین کے دونوں بھائی اسماء بیگم رحمان صاحب ، شعبان صاحب ، اِمتیاز صاحب ، روبینہ بیگم رمنہ ،مومنہ سارہ ، اُکے ممّی ڈیڈی اور بھی بہت سارے شخصیات وہاں اور موجود تھی.........
سفید پشاوری سلوار کميز میں پشاوری ہی چپل پہنے گولڈن واسکٹ پہنے وُہ کم نہیں لگ رہا تھا.......
سب کے درمیان بیٹھا وُہ بار بار اپنی ہاتھ میں پہنی واچ کی طرف دیکھ رہا تھا...
"کیا بات ہے بیٹا؟ رحمان صاحب بہت دیر سے سمعان کو دیکھ رہے تھی اب اُنہونے سرگوشی کے انداز میں سمعان سے پوچھا....
"کچھ نہیں انکل بسس ویسے ہی ! اُسنے مسکرا کر جواب دیا ....
"اچھا جی ! رحمان صاحب ہنس دیے تھے یہ بول کر...
چھوٹی سی تقریب تھی یہ اپنی ایک دم ہوا تھا یہ سب کچھ... پورا رحمان ویلہ دلہن کی طرح دیکوریٹ کیا ہوا تھا......
باہر لان میں مہمانوں کا انتظام کیا گیا تھا....
نکاح کا وقت ہوا تو رمنہ سارہ مومنہ اور کچھ اور لڑکیاں جیری کو لینے روم میں چلے گئے تھے.....
.....................💖💖💖💖
جیری گولڈن رنگ کا ہلکی سی ایمبرائیڈری والا گاؤن جو کہ خود سمعان احمد کی پسند کا تھا... وُہ پہنا ہوا تھا گلے میں ہلکا سا نیک لیس پہنے ماتھے پر ٹیکہ لگائے برائڈل لُک میں وُہ غضب ڈھا رہی تھی....
وُہ سیسے کے سامنے بیٹھی خود کو نہار رہی تھی.. آج وہ آخری بار خود کو تسلّی سے دیکھ لینا چاہتی تھی.... زندگی کا ہے پل ہر لمحہ اُسکے سامنے فلم بن کر چلنے لگا تھا...
باپ سے جدائی پھر ماں سے جدائی اُسکے بعد لوگوں کی جلی کٹی باتیں پھر اُس اهوان کا نیا شوشہ پھر ری سے جدائی اور اب جب ایک فیملی محبّت کرنے والی اسکو میسّر ہوئی تو ایک اور سفر اُسکا شروع ہو گیا....
"یا اللہ نہ جانے میری قسمت میں تونے کیا لکھا ہے؟ اُسنے آنکھوں کے گوشے سے آنسوں کو صاف کیا تھا..
"کیا یہ نکاح ہمیشہ ہی ڈیل رہے گا ؟ اُسکے دل میں ایک دم سے دماغ نے دھماکہ کیا تھا....
"ہاں اور نہیں تو کیا ؟ یہ صرف محض ڈیل ہے.." جیری نے خود کو دپٹ کر شانت کروایا تھا
" ہہہہہہ ! اچھا .... تبھی دروازہ دھڑام سے کھلا تھا...
"اوہ ہائے میری پاری سی دوست غضب ڈھا رہی ہے ماشاللہ ! سارہ نے اُسکی بلائیں لیتے ہوئے شوخی سے کہا تھا وہاں کھڑا ہے فرد مسکرا دیا تھا....
" ہاں نہیں تو کیا بھئی آج تو نند صحابہ سامی بھائی کوئی کہی کا نہیں چھوڑے گی ! رمنہ بھابی نے مسکرا کر چھیڑا جیری کو.......
جس پر جیری کے چہرا لال گلابی ہو گیا تھا....
"واہ بھئی بلش کر رہی ہے میری پرنسز ! ...
سارہ نے اسکو تھوکا مارا ..... " بسس بسس یار رہنے دو میری نند کو مزید پریشان نا کرو بھئی.....
اور پھر اسکو لیے وُہ سب باہر لان میں آ گئے تھے جہاں دولہا دلہن کا بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا....
جیری کی سب نے ہی نظر اُتاری تھی.....
اُن دونوں کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی لگ رہی تھی........
امتیاز صاحب نے تو جیری کے سے پر محبّت بھرا ہاتھ رکھا تھا جبکہ سب بہت خوش نظر آ رہے تھے....
امتیاز صاحب نے مولوی صاحب کو نکاح پڑھانے کا حکم دیا جس کی تعمیل کرتے ہوئے مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا تھا.....
سمعان احمد غازی آپکا نکاح جیرش روہیل خان کے ساتھ بعوج ایک اسّی لاکھ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کیا جاتا ہے
مولوی صاحب : کیا آپکو قبول ہے ؟
مولوی صاحب نے سمعان کی طرف ریجسٹر بڑھایا تھا جہاں اُسکی دستخط کرنے تھے
سمعان احمد: "قبول ہے !
مولوی صاحب : "کیا آپکو نکاح قبول ہے ؟
سمعان احمد: "جی قبول ہے !
مولوی صاحب : "کیا آپکو نکاح قبول ہے ؟
سمعان احمد: "جی قبول ہے !
جیری گردن جھکائے بیٹھی تھی ایک لمبا سا گھونگھٹ کیا ہوا تھا آنکھوں سے اشک جاری تھے جنکو روکنے کی سعی وہ کے رہی تھی.....
مولوی صاحب نے اب جیری سے اجازت لی تھی اور ریجسٹر اُسکے سامنے کیا ....
جيرش روہیل خان آپکا نکاح سمعان احمد غازی سے بعوج ایک اسّی لاکھ حق مہر سکّہ رائج الوقت کیا جاتا ہے۔
" کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟
جیری کا ایک دم دل زور سے دھڑکنا شروع ہو گیا تھا بے اختیار آنسوؤں کا سیلاب شروع ہو گیا تھا اُسکے ہاتھ کانپنے لگے تھے جبکہ وجود پورا ٹھنڈا پڑ چکا تھا...
اُسکی دونوں تائی امیوں نے اُسکے گرد اپنا گھیرا تنگ کیا تھا جبکہ رمنہ اور مومنہ نے اسکو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلّی بخشی تھی سارہ نے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا .....
ان سب کی محبّت کو دیکھ کر جیری کو راحت محسوس ہوئی تھی ایک نگاہ اُسنے سب کی طرف ڈالی تھی اور پھر نظروں کہ پھیر سمعان پر آ کر رُک گیا تھا...
یہ لمحہ جیری کے لیے بہت مشکل تھا پر کہتے ہیں نہ کُچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے اور وہ یہی کرنے جہ رہی تھی.....
اگر اُسکی زندگی داو پر لگ کر کروڑوں کی تعداد مینوں معصوموں کی زندگی کو سکون مل سکتا تھا تو وہ اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار تھی...
نکاح محبّت کی پہلی منزل ہے یہ خوشیوں کا مختصر جذبہ ہے احساس نیا راستہ لیکن اسکے لیے یہ نکاح سر پر کفن کے مانند تھا ہاں یہ نکاح صرف ایک ڈیل تھی اُس سے زیادہ کچھ بھی نہیں اس نکاح کے بعد اُسکی زندگی کا مقصد بدلنا تھا اُسکا صرف ایک مقصد تھا پھر اور وُہ تھا
اس ملک سے اهوانوں کو ختم کرنا.....
نظریں جھکائی تھی اُسنے...
جیرش روہیل خان : "ججی قبول ہے !
مولوی صاحب : "کیا آپکو نکاح قبول ہے ؟
جیرش روہیل خان : "جی قبول ہے !
مولوی صاحب : "کیا آپکو نکاح قبول ہے ؟
ایک آخری بار اُسنے پھر سے نظریں ہر جانب دوڑائی تھی سب ہنستے مسکراتے اسکو ہی دیکھ رہے تھے...
جیرش روہیل خان : "جی قبول ہے !
اُسکی زندگی ان تینوں لفظوں سے بدل گئی تھی اب وہ جیرش روہیل خان سے جیرش سمعان احمد غازی ہو گئی تھی....
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے تھے.... دعا اُن دونوں کو دی گئی تھی پھر سبکو ایک دوسرے کو مبارکباد دی گئی تھی........
جیری کو سمعان کی آغوش میں لا کر بٹھا دیا گیا تھا......
کھانے کا دور شروع ہوا تو سب کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے.......
اُن دونوں کی درمیان بلکل خاموشی تھی جسکو سمعان کی بھاری مغرور آواز نے توڑا تھا.....
"مسز صبح چار بجے تیار رہیے گا.....
وُہ جو گردن جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی.. سمعان کی آواز اور اُسنے بے اختیار پلکیں اٹھا کر سمعان کی طرف دیکھا تھا.... کئی لمحہ تک دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکا کر جواب دیا تھا..
"جی !
کھانے کے بعد فوٹو سیسن شروع ہوا تو سب نے اُن دونوں کے ساتھ فوٹو کھچوائے تھے....
ہر کوئی اس لمحہ کو اپنے کیمرے میں قید کر لینا چاہتا تھا.... ایک خوشگوار لمحات کے ساتھ یہ دور بھی اختتام کو پہنچا تو.....
رخصتی کا وقت آیا سارہ شایان اور محسین رمنہ مومنہ اُن دونوں کے شوہر نامراد سمعان سے پہلے اُسکے اپارٹمنٹ پہنچ گئے تھے.......
دعاؤں اور قرآن مجید کے سائے میں جیری کو سمعان کے ہمراہ رخصت کیا گیا تھا.......
گاڑی سمعان خود ہی ڈرائیو کر رہا تھا.... پورے راستے اُن دونوں کے بیچ خاموشی رہی تھی.....
آدھا گھنٹے کے بعد گاڑی سمعان کے اپارٹمنٹ کے سامنے رکی .. ہورن دینے پر گارڈ نے گیٹ کھولا تھا...
استقبال کے لیے گیٹ پڑ وُہ سارے کھڑے تھے پھولوں پنکھڑیوں پر چلتے ہوئے جیری کو سمعان کے روم میں جایا گیا تھا......
جبکہ سمعان کو وہیں باہر گھیر لیا گیا تھا.......
جب جیری نے سمعان کے روم میں قدم رکھا تو اُسکے نٹھو سے گلاب کی خوشبو نے اُسکا استقبال کیا تھا .. اُسکی روح تک سرشار ہو گئی تھی.....
اسکو بیڈ پر بٹھایا گیا تھا.... وُہ سب جا چکی تھی.. جیری نے کمرے کا جائزہ لیا تھا آج صبح ہی تو وہ اس کمرے سے گئی تھی اسکو نہیں پتہ تھا کہ اتنی جلدی پھر وہ اس کمرے میں واپس لوٹ کر آئے گی..
وُہ ابھی جائزہ ہی لے رہی تھی جب باہر سے شور کی آواز آیا تھا.... اُسنے غور سے ان آوازوں کو سنا...
.......................💖💖💖💖
"اوہ بھائی اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ چل بیٹا جلدی سے اپنا والٹ ہمارے حوالے کر دیں یہ تھا آٹھواں عجوبہ 😆😆😆
"کیوں کس خوشی میں ، میں اپنا والٹ تمہیں دوں ؟ سمعان نے آئی برو تن کر پوچھا تھا...
"یہ لو ان جناب کو اب پہلے سمجھانا پڑےگا ! محسین نے ہنستے ہوئے مذاق اڑایا تھا.......
"دیکھ آج میرا ٹیچر بننے کا کوئی موڈ نہیں ہے اس لیے جلدی سے دیں اپنا والٹ اور اندر جانے کا شرف حاصل کر لیں... ابکی بار شایان نے بھی اپنا حصّہ ڈالنا ضروری سمجھا تھا ........
"نہیں میں اپنا والٹ ہرگز نہیں دوں گا تُم ہی چلے جاؤ اندر میں تہ باہر ہی سو جاؤں گا... ویسے بھی اب مجھے شدید قسم کی نیند آ رہی ہے مجھے صبح چار بجے اٹھنا بھی ہے ... ایک لمبی چوڑی سنا کر سمعان لاؤنج کی طرف بڑھ گیا تھا.......
جبکہ اُن سب کا حال دیکھنے والا تھا....😆😆😆
"لو بھئی کس کنجوس سے ہم نے اپنی بہن کا نکاح کر دیا جس سے کوئی اُمّید نہیں رکھی جا سکتی...
محسین نے سر پر ہاتھ مار کر اونچی آواز میں کہا تھا مقصد سمعان کو سنانا تھا......
"ہاں تو یہ اپنی بہن سے پوچھنا تھا نہ ! بغیر پلٹے سمعان۔ نےبھی اُسکے ہی انداز میں ہی جواب دیا تھا...
"آجا نہیں مانگتے تُجھ کنجوس سے کچھ ! اس بار شایان نے کہا تھا......
جبکہ سارہ اور اُن دونوں کا تو ہنستے ہنستے بُرا حال تھا.....
ہاہاہاہا ہاہاہاہا بڑا ایا والٹ لینے والا ہاہاہا ہاہاہا....
"چپ کر یہ دانت اندر کو کر لیں کہی کوئی مچھر لات ہی نہ مار جائے اور پھر میرا کوئی ارادہ نہیں ہے بغیر دانت والی لڑکی سے شادی کرنے کا......
شایان نے سارہ سے کہا تھا.... سارہ کو تو بریک ہی لگ گئی تھی شایان کی آخری بات پر........
آؤ بھابی ہم چلتے ہیں سارہ منہ بنا کر بولی تھی ...
"چلو ! وُہ دونوں بھی جانے کے لئے تیار کھڑی تھی...
"گڑیاں اپنا نیگ تو لے جاؤ .. سمعان نے اپنا والٹ سارہ کی طرف بڑھایا جسکو اُسنے خوشی خوشی تھام لیا تھا .....
"شکریہ بھائی ! اور پھر اُن دونوں کو چڑھاتے ہوئے وُہ باہر کی طرف بڑھ گئی تھی......
"قسم سے تو ایک نمبر کا زلیل ہے مطلب ہم سے تو تیری دشمنی ہے محسین نے کچکچا کر گھورا تھا سمعان کو ......
"ہاں تو جسکا نیگ ہوگا اسکو ہی دوں گا نہ اور ویسے بھی فالتو لوگوں کے لئے میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے..........
"ہاں بیٹا ابھی بہت موقع ائیگے دیکھ لینا گن گن کر بدلہ لے گے ہم تُجھ سے...... دونوں اسکو دیکھتے ہوئے بولے......... جواب میں سمعان نے اُنکو گھوری سے نوازا تھا......
"ہاں ہاں جا رہے ہے... وُہ دونوں اُسکی گھوریوں سے بچنے کے لیے جلدی سے بولے تھے... اور وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے تھے....
😆😆😆😆😆😆
.......................💖💖💖💖💖
سمعان جب کمرے میں آیا تو جیری سادہ سے پنک رنگ کے سلوار سوٹ میں تھی شانوں پر دوپٹہ ڈالا ہوا تھا.. جبکہ چہرا بلکل میکپ سے عاری تھا...
بالوں کو کھلا چھوڑ ہوا تھا جو کمر کے نیچے تک پھیلے ہوئے تھے......
وُہ آئینے کے سامنے کھڑی بالوں کو برش کے رہی تھی جب سمعان الماری کی طرف بڑھا تھا اور اسکو کھول کر اُس میں سے اُسنے ایک سُرخ رنگ کا ڈبہ باہر نکالا تھا اور الماری کا پٹ بند کرتا جیری تک آیا تھا........
جیری کا دل دھڑکنے لگا تھا.... "مسز ! سمعان نے پُکارا جیری کو اُسنے آہستہ سے پلکے اٹھائی تھی اور آئینے میں دیکھا تھا جہاں سے اُسکے پیچھے کھڑے سمعان احمد کا عکس اُبھرا تھا.......
"مس جیری ! یہ آپکے لیے ایک بار فائر پُکارا لیکن اس بار اُسنے مسز نہیں بلکہ مس جیری کہہ کر اسکو پُکارا تھا......
وُہ پلٹی تھی... "جی !
"یہ آپکے لیے ہے اُسنے ہاتھ میں پکڑا سُرخ ڈبہ اُسکی طرف کیا تھا.....
جسکو جیری نے تھام لیا تھا...... اور سمعان کی طرف دیکھا تھا......
"تو مس جیری یہ آپکو طب پہننا ہے جب آپکا مشن شروع ہوگا ... اُسنے بتایا تھا جس پر جیری نے گردن ہلا دی تھی......
"کل آپکی ٹریننگ شروع ہوگی جو کہ میری نگرانی میں ہوگی.....
صبح کا الارم لگا لینا اب آپ سو جائے مجھے کچھ کام ہے وُہ بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا... جیری نے بند دروازے کو دیکھا تھا اور پھر اُس ڈبے کو الماری میں رکھتے ہوئے وُہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی تھی.... الارم لگانا وُہ بلکل نہیں بھولی تھی۔۔۔۔
.....................💖💖💖
وُہ سو رہی تھی جب الارم کی آواز سے ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی تھی .. اُسنے آنکھیں مسلتے ہوئے سائڈ بلب جلایا تو سامنے سمعان بیٹھا نظر آیا تھا... اُسنے شانوں پر دوپٹہ کیا اور اٹھ کر واشروم چلی گئی تھی......
جب وہ باتھرُوم سے آئی تہ سمعان اسکو ٹریک میں ملبوس تھا .... جیری نے پہلے تہجّد ادا کی تھی....
جب وہ نماز ادا کر کے اٹھی تو سمعان نے جیری کی طرف ٹریک سوٹ بڑھایا ....
"آپ انکو پہن لیں ! سمعان نے کہا تھا....
جیری نے ہاتھ میں تھام کر باتھروم کی طرف بڑھ گئی تھی.... پانچ منٹ بعد وہ ٹریک سوٹ میں تھی.. اب اُسنے بالوں کا جڑا بنایا ہوا تھا......
"آر یو ریڈی ؟ سمعان نے ہاتھ میں واچ پہنتے پوچھا..
"جی آئی ایم ریڈی ! اُسنے کہا تھا پھر وہ دونوں آگے پیچھے روم سے باہر نکل کر اینٹری گیٹ کھول کر باہر روڈ پر نکل آئے تھے.......
"مس جیری کیا آپنے کبھی جاگنگ کی ہے ؟ شام نے جوگرز کو ٹھیک کرتے ہوئے جیری سے پوچھا ....
"جی ! اکثر میں "ری" کے ساتھ جایا کرتی تھی . پھر جب میں احمد ویلہ آئی تو میں عامر کے ساتھ روز صبح پانچ بجے جانے لگی تھی ...
"ری .. یہ کون ہے ؟ شام نے " ری " کا نام جیری کے منہ سے سنا جس میں دنیا جہان کی عقیدت اسکو محسوس ہوئی تو بے اختیار پوچھ بیٹھا تھا.....
"ری " وُہ میرا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ بیسٹ فرینڈ بھی تھا.... چہرے پر خوشی واضح طور پر نظر اہ رہی تھی جیری کے ....
"اوہ ہ ہ !! یو مین کہ آپکا بچپن اُنکے ساتھ گزرا ہے...
"آئی ایم رائٹ ؟ اُسنے اَپنی بات کی تصدیق چاہی جس پر جیری نے زور زور سے گردن ہلا کے تشیح کر دی تھی......
"اوکے ! چلو پھر دیکھتے ہیں آپ کتنی رفتار میں جاگنگ کر لیتی ہے .." سنجیدہ سا اب وُہ بول رہا تھا....
"یہاں سے ایک کلو میٹر کی دوری پر زم ہے آپکو وہاں پر جاگنگ کرتے پہنچنا ہے ..... دیکھتے ہیں آپ کتنی دیر میں وہاں پہنچتی ہے .." شام نے سمنجیدگی سے جیری کی طرف دیکھ کر کہا تھا ... جیری تو اُسکے چہرے کو ہے دیکھتی رہ گئی تھی .. جو کسی بھی جذبات سے عاری نظر آ رہا تھا.....
وُہ یہ بول کر وہاں سے جانے لگا تھا کہ پیچھے سے جیری نے اسکو آواز دی تھی.....
"سنیے آ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟
وُہ پلٹا اور گھور کر جیری کو دیکھا شائد اسکو اپنے پیچھے سے پکارنا اچھا نہیں لگا تھا....
"میں آپکو جم میں ملوں گا .... !
"وہاٹ ٹ ٹ ؟ ہ ہم یہاں پر ایسے سنسان روڈ اور اکیلے جاگنگ کریں گے ؟ اُسکی آواز سے ہی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ اندر سے بہت خوف زدہ ہو گئی ہے ...
"یس ! اور بے فکر رہے یہاں آپکو کوئی بھی کُچّھ نہیں کہے گا کیونکہ یہ آرمی اریا ہے ... وُہ اپنی بات بول کر آگے بڑھ گیا تھا جبکہ پیچھے سے جیری بسس اُسکی گھور ہی سکتی تھی......
"اوہ ہ ! تو یہ آرمی اریا ہے ... تبھی میں سوچوں کہ اس پاس اتنی خاموشی کیوں ہے یہاں اور اتنے بڑے بڑے درخت نہ کوئی موٹر کار وغیرہ یہاں ..!! اب آیا سمجھ کہ یہ آرمی روڈ ہے جسکی وجہ سے یہاں اور اتنا سنّاٹا ہے .. ہم بھی پتہ نہیں اپنی سوچو میں اتنا غرق ہو جاتے ہیں کہ آس پاس کا کچھ ہوش ہی نہیں رہتا ."اُسنے خود سے بڑ بڑا کر سے میں ہاتھ میں مارا تھا.......
"چل جیری ہو جا شروع ! اُسنے جاگنگ کرنی شروع کر دی تھی کریب ٹوئنٹی منٹ میں وُہ جم کے سامنے کھڑی لمبی لمبی سانس لے رہی تھی......
" مس جیری لگتا ہے آپکے ساتھ مجھے زیادہ سر نہیں خپانا پڑےگا ..شام نے ایک تولیہ اُسکے طرف بڑھا کر سنجیدگی سے بولتے اندر کے جانب بڑھ گیا تھا.....
جیری بس دیکھتی رہی تھی.. دو تین منٹ ہی گذرے تھے کہ جب شام کی آواز آئی....
"مس جیری یہاں ہم نظارے نہیں دیکھنے آئے ہیں بلکہ ایکسرسائز کرتے ہیں یہاں مابدولت کو جم کے نام سے بلایا جاتا ہے..... گلاس ڈور سے اپنا چہرا باہر کی طرف نکال کر شام نے کہا تھا ......
جیری کا دل کیا کہ اس کھڑوس کو اٹھا کر یہیں پٹک دیں لیکن ہائے وُہ بسس سوچ ہی سکتی تھی ایسا.....
تین گھنٹے ایکسرسائز کے بعد وہ بری طرح تھک چکی تھی.... وُہ ایک چیئر اور بیٹھی لمبے لمبے سانس بھر رہی تھی... مس جیری ابھی بہت سی پریکٹس باقی ہے بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا...
وُہ تو ابھی باہر گیا تھا کچھ کام کا بول کر اتنی جلدی یہاں بھی ٹپک پڑا تھا ؟ وُہ تو بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی......
شام کی باتوں سے وُہ تنگ آ گئی تھی... جھٹکے سے وُہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور بھڑک ہی اٹھی...
"نہیں آپ بتہ دیں مجھے بتہ دیں کہ بندہ سانس بھی نہ لیں یا میں آج کی ہی ٹریننگ سے ایس آئی ڈی بن جاؤں گی ہاں ؟
اسکو ایسے دیکھ کر شام کو غصّہ تو بہت آیا تھا کب وُہ کسی کی اونچی آواز کا عادی تھا لیکن ابھی کام تھا اسکو اس لڑکی سے اس لیے تھوڑا نرم پڑا تھا وہ ..
"اوکے اوکے کالم ڈاؤن ! فائیو منٹ ہے آپ کو جو کرنا ہے وُہ کر لیں.. احسان کرنے سے کے انداز میں اُسنے اسکو پانچ منٹ کا وقت دیا تھا......
"نہ آپ یہ بھی نہ دیں .. جیری غصے سے بولتی آگے بڑھ گئی تھی ..
"اوکے ایذ یو وش ! کندھے اچکا کر وُہ بھی اُسکے پیچھے ہو لیا تھا.....
.....…..................💖💖💖💖
گاڑی روڈ پر رواں دواں دی تھی وہ گاڑی کے شیشے سے باہر کا نظارہ دیکھنے میں محو تھی...
بڑے بڑے درخت ایک سنسان سا روڈ جہاں ایک دکا گاڑیاں اپنی منزل کی طرف جا رہی تھی... روڈ کے دونوں طرف بڑے گھنے گھنے جنگل تھے کہیں چھوٹے چھوئے گاؤں بھی آ جاتے تو کہیں پر کھیت آ جاتے تو کہیں بنجر علاقہ .....
وُہ پہلی بار گاڑی میں بیٹھ کر یہ سب دیکھ رہی بغیر کسی خوف کے.... اُسکے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی.... وُہ خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا ایک دو بار جیری اور نظر ڈالتا اور پھر سے گاڑی ڈرائیو کرنے پر فوکس کر لیتا....
ساڑھے تین گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی علاقے میں آ کر رکی تھی بڑے رقبے پر پھیلی یہ بڑی اونچی اونچی دیواریں جو شائد چاروں اطراف میں ہی تھی........
آج کا پورا دن تو اسکو سمجھانے میں گزر گیا تھا...
اُسنے ایک بڑے سے لوہے کے گیٹ کے سامنے ہورن دیا تو گارڈ نے جلدی سے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا تھا....
جیری سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی اب وہ اندر کا منظر دیکھ رہی تھی اینٹیں، پتّھر دیواریں کھڑی کر کے بڑے بڑے مورچے بنائے ہوئے تھے
جگہ جگہ بوریاں پڑی ہوئی تھی پولیس آرمی کی یونیفارم میں اِکا دکا آدمی چل رہے تھے...
کہی اور بہت سارے کیڈٹس اسکو ٹریننگ کرتے نظر ائے تو کوئی رسیوں کو پکڑ کر اوپر کو چھڑنے کی سے کر رہے تھے.....
اسکو یہ سب بہت انوکھا اور لطف اندوز لگا تھا ابھی وُہ ان سب کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ ہی رہی تھی جب گاڑی رکی اور شام نے اسکو نیچے اترنے کا حکم دیا وُہ بغیر کچھ کہے نیچے اتر گئی تھی اور گراؤنڈ پر نظر گھماتے ہوئے وُہ شام کے ساتھ چلتی چلتی ایک بہت بڑے کوری ڈور میں آ گئی تھی... کچھ جونیئرز نے شام کو سلیوٹ کیا تھا شائد وه ٹرینیگ کر رہے تھے ایسا جیری کو لگا تھا...
ابھی رات کے سائے گہرے ہو چکے ہیں کچھ وقت تک سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جائے گے .. امم ابھی سات بج رہے ہیں ٹھیک دس بجے ریڈی رہیے گا
راہ داری سے گذرتے ہوئے شام ایک کمرے کا لوک کھولتے ہوئے بولا تھا...
"لیکن میں بہت تھک گئی ہوں ... جیری کو اب صحیح معنوں میں اپنا بدن ٹوٹتا محسوس ہوا تھا..
"مس جیری یہاں ہم ریسٹ کرنے نہیں آئے ہیں... یہاں ٹریننگ کرنے آئے ہیں اور جو حالت آپکی مجھے ابھی سے ہی لگ رہی ہے نہ ایسے تو پورے سال بھی ٹریننگ آپکو دی جائے تو وہ بھی کم ہے.... کاٹ دار لحظے میں بولتا ہوا وُہ اُسکا سامان کمرے رکھ کر نکل گیا تھا.......
"ہائے اللّٰہ میرا اس کھڑوس کے ساتھ کیسے یہ دو منٹھ گذرے گے .. آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے اُسنے اللّٰہ کو یاد کیا تھا.....
"بھئی اب تو تمہیں گذارا کرنا ہی پڑےگا جو بھی ہو .. اُسکے دل۔سے۔آواز آئی تھی جس پر اُسنے منہ بصورا تھا........
وُہ جلدی سے فریش ہوئی اور پھر تھوڑا بہت کھانا کہ کر جلدی سے بستر میں لیٹ گئی تھی .. صحیح تین گھنٹے بعد وہ اُسکے کمرے کے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا....
وُہ پہلے بھی زیادہ گہری نیند نہیں سوتی تھی وُہ جلدی سے آنکھوں کو مسلتے ہوئے اٹھی اور دروازہ یوں ہی نیند میں کھولا تھا......
"مس جیری ! بھاری مغرور آواز جو کہ اس وقت غصے میں لگ رہی تھی... فٹاک نے اُسکی دھاڑ سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تھا وہ اسکو ہی گھور رہا تھا.....
"اتنی دیر سے انٹرکام میں آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہا ہوں پر آپ ہے کہ گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی ...
"اتنی لاپرواہی ! حد ہے....
"آپکے پاس صرف پانچ منٹ ہے جو کرنا ہے کریں اب نو آرگومنٹ سمجھ آئی وُہ غصے سے وارننگ دیتے ہوئے یہاں جا وہاں جا....
"ہہہہ بڑے آئے پانچ منٹ والے .. جیسے پانچ تک گنتی آتی ہو جناب کو .. وُہ اُسکی نکل اُتارتے ہوئے واشروم کی طرف بھاگی تھی..
............................💖💖💖💖
Epi 14 has been published now ..
Go nd read n ur reviews 😅😅😅😅
Karan
09-Jun-2022 12:00 AM
Good
Reply
Shnaya
28-May-2022 01:45 PM
👌👌👌
Reply
Arshik
27-May-2022 04:19 PM
Nice👏👏
Reply